برگِ بار

آپۖ جذاب ہو راہ صواب ہو

Posted on جولائی 9, 2010. Filed under: نعت, اردو کلام, برگِ بار |

آپۖ جذاب ہو راہ صواب ہو
زر ناب ہو خندہ آفتاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپۖ رشاد محبوب رب العباد ہو
پرسرخاب ہو تَسخِیرِماہتاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپۖ اتساہ با صفا اذعان ہو
باغ رضوان ہو توقیر الوہاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپۖ روشن سواد دل نہاد ہو
رشادی روشن جہان تاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپۖ چمن دلبہار اشہر نجم اطہرہو
ہم صادق الاعتقاد کو امید حسن المآب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

میرے دل چاک کو آپۖ فرحت ناک ہو
میں گوہر بے آب ہوں آپۖ گوہر خوش آب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

میں مشت خاک ہوں آپۖ مصحف پاک ہو
میں نقش بر آب ہوں آپۖ نگہت مآب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

برگِ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

محبوب خدا سفارش کرنا

Posted on فروری 24, 2010. Filed under: نعت, اردو کلام, برگِ بار |

آپۖ کے نور کی ہے جلا محبوب خدا سفارش کرنا
میری آتش عشق کو بڑھکاۓ ردا کی ہوا
محبوب خدا سفارش کرنا
ہرعاشق کا سلام میرے وجود سے ہو کر گزرے
آپۖ کے در آتی ہر گلی کا ہو جاؤں خاک پا
محبوب خدا سفارش کرنا

عقیدت و محبت میں ہر جالی سے گزر جاؤں
قدموں میں مسل مسل کر ہو جاؤں ہوا
محبوب خدا سفارش کرنا
آپۖ کی رحمتوں کو بن کے ہوا سمیٹ لوں
گھر گھر دستک دوں ہو جاؤں صدا
محبوب خدا سفارش کرنا
مجھ بےعلم کے آنسوؤں کو گر مل جاۓ زباں
صحرا میں عقیدت کے پھول دوں کھلا
محبوب خدا سفارش کرنا
مدینہ شہر مجھے نظر آتا ہے گنبد
ہر ذرہ کو دیکھتا ہوں پڑھتے ہوے ثنا
محبوب خدا سفارش کرنا
آپۖ ہی کی طریقت ہو میری اِتِّباع پَیراہَن
میرا قلب پڑھے لا الہ الااَللہ نظر آوں گدا
محبوب خدا سفارش کرنا
روح ایمان کرے بیان آپۖ ہی کی شان
برق شِتاب ابصار کی ہے ابتغا
محبوب خدا سفارش کرنا

برگ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدہء شکر ختم نہ ہو

Posted on جنوری 24, 2010. Filed under: اردو کلام, برگِ بار, حمد باری تعالی |

تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدہء شکر ختم نہ ہو
تیرے راستے میں کانٹے ہوں میرا سفر ختم نہ ہو
پھیلا دوں روشنی کی طرح علم خضر ختم نہ ہو
توبہ کرتا رہوں اتنی میرا عذر ختم نہ ہو
سجدے میں سامنے تیرا گھر ہو یہ منظر ختم نہ ہو
تیری رحمتوں کی ہو بارش میرا فقر ختم نہ ہو
مجھ ادنیٰ کو تیرے انعام کا فخر ختم نہ ہو
جہاں جہاں تیرا کلام ہو میرا گزر ختم نہ ہو
تیری منزل تک ہر راستے کی ٹھوکر ختم نہ ہو
آزمائشوں کے پہاڑ ہوں میرا صبر ختم نہ ہو
زندگی بھلے رک جائے میرا جذر ختم نہ ہو
وجود چاہے مٹ جائے میری نظر ختم نہ ہو
تیری اطاعت میں کہیں کمی نہ ہو میرا ڈر ختم نہ ہو
بادباں کو چاہے کھینچ لے مگر لہر ختم نہ ہو
خواہشیں بھلا مجھے چھوڑ دیں تیرا ثمر ختم نہ ہو
تیری عبادت میں اتنا جیئوں میری عمر ختم نہ ہو
بھول جاؤں کہ میں کون ہوں مگر تیرا ذکر ختم نہ ہو
جاگوں جب غفلتِ شب سے میرا فجر ختم نہ ہو
تیری محبت کا جرم وار ہوں میرا حشر ختم نہ ہو
تیری حکمت سے شفایاب ہوں مگر اثر ختم نہ ہو
میرے عمل مجھ سے شرمندہ ہوں مگر فکر ختم نہ ہو
منزلیں چاہے سب گزر جائیں مگر امر ختم نہ ہو
سپیدی و سیاہی رہے نہ رہے مگر نشر ختم نہ ہو
دن چاہے رات میں چھپ جائے مگر ازہر ختم نہ ہو

برگِ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( 1 so far )

جس کو ملے حکمِ اذاں

Posted on جنوری 24, 2010. Filed under: اردو کلام, برگِ بار |

جس کو ملے حکمِ اذاں غلام سے سردار ہو جائے
اگر عبادت میں ہو دکھاوا تو انکار ہو جائے
بات گر حد سے بڑھے تو تکرار ہو جائے
تقاضا بار بار ہو تو اصرار ہو جائے
منظر جو دکھا دیا تو علمبردار ہو جائے
نظر سے جو چھپا لیا تو اسرار ہو جائے
عشق کی ہے انتہا ہر پتے میں دیدار ہو جائے
گل جو سونگھ لوں دل بیقرار ہو جائے
نیکی زبان زدِ عام ہو تو بیکار ہو جائے
لفظوں کو جب ملے زبان تو شاہکار ہو جائے
عقل خرد تو شعورِ علم سے بیزار ہو جائے
شاہانہ مزاج ہی اس کا سرکار ہو جائے
مومن کا عملِ صالح تو سالار ہو جائے
ضعیف الایمان تو صرف رضاکار ہو جائے

برگِ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

میوہ و مہک سے گر تو اکتائے

Posted on جنوری 24, 2010. Filed under: اردو کلام, برگِ بار |

میوہ و مہک سے گر تو اکتائے تو لوٹا دینا
نعمتیں حسرتوں سے بڑھتی پائے تو لوٹا دینا
آنسو غم سے خوشی میں ڈھل جائے تو لوٹا دینا
تکبرِ پا سے خاک سر کو آئے تو لوٹا دینا
آب کو گر آگ گرمائے تو لوٹا دینا
گل مہکنے کے بعد مرجھائے تو لوٹا دینا

برگِ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

بلبل تو جگنو کی روشنی کی ہے طلبگار

Posted on جنوری 24, 2010. Filed under: اردو کلام, برگِ بار |

بلبل تو جگنو کی روشنی کی ہے طلبگار
ظلمتِ شب تو درویش کو ہیں نورِ مینار
خیالِ مراتب ہو جہاں وہ ہے شاہی دربار
شاہ و گدا صرف وہیں کھڑے ہیں ایک قطار
جسے جس کی تمنا وہی ہے اس کا دلدار
جھکنا اس کو اچھا احسان کا نہیں جو روادار
دامن بھر بھر لیتے ہیں وہ زرِ انگار
تہی دَست کو ملتا ہے گلستان و گلزار
تجھ پہ موقوف چاہے تو دربار یا انوار
مہکنے کو تو گل ہی ہو گا خار دار
گر تو قید یہاں وہاں سے نہیں راہِ فرار
سمجھ اس بات کو وہ تو ہے بڑا مددگار
اس بازی میں تو جیت ہے یا ہار
ایک میں بیقراری ایک ہے گلزار
کیا مشکل ہے گر ہو جائے تھوڑا ابرار
ورنہ تو ہر طرف ہی ہے فگار و ضرار
کوئی کہے کہ اب نہیں ہوتا انتظار
میرے لیے تو کافی ہے یہی اشکبار
مانگیں پناہ خُدا سے سب دل آزار
خود سے تو کبھی اوروں سے بیزار
تَکبر سے جب اپنے ہوتے ہیں لاچار
ڈھونڈتے ہیں اپنے لیے پھر راز دار
تیرے عشق جنوں کا ہے مجھے خَشِیت بخار
نہیں ضرورت باقی اب کسی مسیحاء تیماردار

برگِ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

عشق کا رنگ ہو غالب

Posted on جنوری 24, 2010. Filed under: برگِ بار |

اک رُت آنے سے اک رَنگ جاتا ہے
عشق کا رنگ ہو غالب تو اُٹھایا سنگ جاتا ہے
دیوار میں چنوائی تو تاریخ کہلاتی ہے
عاشق کا جنازہ تو موت کے سنگ جاتا ہے

برگِ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

سیاست کے میدانوں کے بڑے شکاری

Posted on جنوری 24, 2010. Filed under: پاکستان, برگِ بار, سیاست |

سیاست کے میدانوں کے وہ بڑے شکاری
ملک و قوم ہے انہیں صرف پارک سفاری
آئین و انصاف تو ہے مارچ کبھی دھرنا
ووٹ ہے انہیں جاہ و حشمت کی سواری
قائد کے وطن اسلام کو صیغہ آباد لگا دیا
ہاتھ باندھے کھڑے ہیں جہاں سب درباری
چھن گئی ان سے متاع محبوبِ الہٰی
شکر ہے مفتی اعظم نہیں کوئی سرکاری
نہیں خدا کو چاہ جو خود سے نہیں آگاہ
قرآن سے متصادم جن کی رسم کار و کاری
آبِ قطرہ ہی سے ہے لہر ابر و آبشار
صرف خون کو خون سے نہیں کوئی آبیاری
نفسِ شیطان کے ہیں یہ عروجِ کمالات
چھن گئی جن سے عزتِ نفس و خودداری
قوم کی تقدیر بن گئی قسمت کا کھیل
آج اس کی باری تو کل اس کی باری
نہیں بدلتا وہ ایسی قوموں کی تقدیر
جہاں سفید کو ہو سیاہ کی ریا کاری
اب تو سمجھو ابن خلق جوڑ لو تعلق
عشقِ رسول و خوفِ خدا ہو تم پہ طاری
تمہاری روحیں کیوں جسموں سے جدا جدا
تم سب تو ہو ایک خدا کے پجاری
اے خدا چھین لے میرا علم مجھ سے
جو حائل ہو میری شَبِ عبادت گزاری
تیرا گھر ایک ہر گھر میں تیرا کلام ایک
ایک کو دوسرے سے پھر کیوں ہے بیزاری
ابلیس نے ایک بار جو بہکا دیا
بنی آدم نے اختیار کرلی وہی روش ساری

برگِ بار / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( 1 so far )

« پچھلی تحاریر

Liked it here?
Why not try sites on the blogroll...