صحت

بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر

Posted on اگست 13, 2010. Filed under: http://schemas.google.com/blogger/2008/kind#post, معاشرہ, نثری مضامین, آزادی, زندگی, سفینہء محمود, سیلاب، تباہی, سیاست, صحت |

بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بحرحال بہتر ہوتی ہے ۔ روزانہ ہی ٹی وی پر ہمارے سیاستدان یہ راگ آلاپتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن جمہوریت کی نہ تو صحیح ترجمانی کی جاتی ہے اور نہ ہی اصل شکل دکھائی جاتی ہے ۔
جمہوریت سے مراد گلی محلوں اور گاؤں سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں کھلی چھٹی پا کر سیاہ و سفید کے مالک ہو جانا مراد نہیں ۔سیاسی باپ کے بوڑھے ہونے سے پہلے نوجوان بیٹے کو سیاسی گدی نشینی کے لئے تیار کیا جانا بھی نہیں ۔ بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر اسے کہا گیا ہے کہ جس میں معاشرے کے عام افراد بلا خوف وخطر اپنی آزادی اظہار رائے کا حق رکھتے ہوں اور نمائندگی کے لئے وراثت کی بجائے قابلیت کا معیار اپنایا گیا ہو ۔
جمہوریت سے مراد ہے عوام کو اپنے میں سے نمائندگی کا حق ، آزادی رائے کا حق،کاروبار و جائیداد کے تحفظ کا حق،مذہبی آزادی کا حق،تحریر و تقریر کا حق،معاشی تحفظات کا حق،بنیادی تعلیم اور حفظان صحت کا حق،امارت و غربت سے قطع نظر مساوی بنیادوں پر قانون و انصاف کے حصول کا حق،معاشرتی نا انصافی اور سماجی غنڈہ گردی سے استحصال سے محفوظ رکھنے کا حق، ایک عام آدمی کے وہ تمام حقوق جو حکمرانوں سے لیکر قانون نافذ کرنے والے اداروں تک اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے لیکر آزادی صحافت میں لپٹی بعض کالی بھیڑوں سے عزت نفس کو محفوظ رکھنے کا حق بھی شامل ہیں ۔
جس جمہوریت کی آساس آئین پر ہو ۔وہی آئین معاشرے کے تمام مکاتب فکر اور افراد کو حقوق فراہم کرتا ہے ۔مگر بد قسمتی تو دیکھئے آئین کی پاسداری سے صرف پارلیمان ہی اپنے لئے حقوق کا مطالبہ رکھتے ہیں ۔
جن حکمرانوں پر عوام کا اعتبار اٹھ چکا ہو اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو گی ۔وزیراعظم سیلاب فنڈ میں شرمناک حد تک عطیات کا اکٹھا ہونا اس بات کی دلالت ہے کہ عوام جمہوری بھائی بندوں کی ایمانداری پر شکوک کا شکار ہے ۔آخر کار جمہوری وزیراعظم کا میڈیا پر عوام سے مخاطب ہو کر یہ یقین دلانا کہ ایک ایک پائی ایمانداری سے سیلاب زدگان تک پہنچائی جائے گی ۔ اور اس کا حساب بھی دیا جائے گا ۔ ویب سائیٹ پہ جا کر چیک کیا جا سکے گا ۔
پاکستانی عوام نے مصیبت کی ہر گھڑی میں جمہوری حکومت ہو یا آمریت دل کھول کر امداد کی ہے ۔مگر آج وہ مایوس ہیں ان کے کردار و گفتار سے ۔جمہوریت کے یہ چمپئن پارٹی ٹکٹوں پر کروڑوں روپے خرچ کر کے یہاں تک پہنچے ہیں ۔ اور جو اسمبلیوں میں نہیں پہنچے وہ بھی اتنے ہی داؤ پر لگا چکے ہیں ۔ اگر وہی لوگ اپنے الیکشن پر پولنگ کے روز دیگوں پر خرچ آنے والی رقم کا آدھا بھی سیلاب فنڈ میں دے دیتے تو حکمرانوں کو سبکی نہ ہوتی ۔
ہمارے ہاں ایک عام رویہ یہ پایا جاتا ہے کہ قومی سطح پر امداد کی بجائے عید قربان پر کھالیں اکٹھا کرنے والوں کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کے الگ الگ شامیانے ہر شہر میں عوام سے کھلے دل سے امداد کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔مگر ان تمام سیاسی جماعتوں کے اربوں روپے خرچ کر کے الیکشن لڑنے والوں سے قوم کو کیا توقع رکھنی چاہئے ۔ جو صرف قوم سے لوٹا پیسہ قوم پر لگانے کو جائز سمجھتے ہیں ۔اگر صدر صاحب ہی مانچسٹر میں پچاس لاکھ کا اعلان کرنے کی بجائے اس دورہ پر سرکاری فنڈ سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے دورہ منسوخ کر دیتے اور یہی رقم سیلاب زدگان کے فنڈ میں دے دیتے تو آج وزیراعظم صاحب کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ایک ایک پائی کا حساب دیا جائے گا ۔
عوام سے صرف قربانی مانگی جاتی ہے ۔سیلاب نے جو تباہی پھیلائی ہے ۔ بچ جانے والوں کے پاس اب صرف کھالوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا ۔جو ان کے کسی کام کی نہیں ۔ہماری حکومتوں کو جانوروں کی شکل میں صرف کھالیں چاہئے اور انسانوں کی شکل میں بکرے ۔جو صرف چھری دیکھانے سے میں میں کرنے لگیں ۔
جن معاشروں میں تعلیم کا فقدان ہوتا ہے ۔وہاں چند پڑھے لکھے اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق کامیابی کے زینہ پر جلد چڑھ جاتے ہیں ۔مجمع اکٹھا کرنے کے لئے تماشا سے بڑا مداری ہوتا ہے ۔کیونکہ تماشا دیکھا نہیں جاتا دیکھایا جاتا ہے ۔تماشا چاہے ماچس کی ڈبیا کا ہو ۔ مگر زبان سے منظر باندھنے والا اسے بڑھکا دیتا ہے ۔
برکتوں کا مہینہ ماہ رمضان کا آغاز ہو چکا ہے ۔مکمل سادگی اختیار کریں ۔عید کے اہتما م میں ہزاروں روپیہ خرچ کرکے امیروں کی تجوریاں بھرنے کی بجائے مصیبت اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد کریں ۔سیاسی اور سیاست کرنے والی مذہبی جماعتوں کو جانچنے کا سب کا اپنا پیمانہ ہے ۔ جن اداروں کا ماضی بے داغ ہے اور خدمت خلق میں جن کا نام کی بجائے کام بڑا ہے ۔ انہی کے سپرد اپنی امدادی امانت کریں ۔ جو پچھلی کارکردگی کے فوٹو سیشن سے بیوقوف بنانے کی کوشش بھی نہیں کرتے ۔
وزیراعظم کا سیلاب میں پھنسے لوگوں کے درمیان جانا اچھا فعل ہے مگر ایک ایک فرد کو کیمرے کی آنکھ کے سامنے تھیلا تھمانا شرمناک فعل ہے ۔ آخر میں تو صرف یہی بات رہ جاتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اجڑے باغاں دے گالڑ پٹواری

Read Full Post | Make a Comment ( 1 so far )

یادداشت کھو جانے والی بیماری الزائیمر کی علامات

Posted on فروری 6, 2010. Filed under: نثری مضامین, صحت |

آج سے چند سال پیشتر پاکستان میں بہت کم لوگ الزائیمر کے متعلق جانتے تھے۔سیمینار منعقد کئے جاتے رہے تاکہ عوام میں بیماری کے بارے شعور بیدار ہو ۔ یادداشت کھونے والی بیماری جو رفتہ رفتہ انسان کو اپنے بس سے باہر کر دیتی ہے ۔
غیر محسوس طریقے سے دماغ کے خلئے آہستہ آہستہ جسم کے اعضاء کو آزاد ی کے پروانے تھماتے چلے جاتے ہیں ۔اورصرف وہی اعضاء کام سرانجام دیتے رہتے ہیں ۔ جو دماغ کے تابع نہیں ہوتے ۔ورنہ تو ایک کے بعد ایک بغاوت کرتا چلا جاتا ہے ۔خودمختاری کے اعلان کے بعد وجود کو زندہ جسم کی بجائے گوشت کا لوتھڑا بنا دیتا ہے ۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یاداشت کی کمی اور یاداشت کے خاتمے کی بیماری ”الزائیمر“ میں دماغ کی گہرائی میں حصہ لینے والے خلیوں الیکٹرانک الیکڑوڈ کے ذریعے متحرک کر کے دماغ میں”نیورون گروتھ“ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن 1994میں اسی بیماری کا شکار ہوئے اور 2004 میں دس سال اس بیماری سے لڑتے لڑتے دنیا سے چلے گئے ۔مگر اس بیماری سے نجات نہیں پا سکے ۔تحقیق سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے نیند میں خلل سے اس بیماری کی علامات یادداشت میں کمی سے شروع ہو جاتا ہے ۔
لیکن اس وقت میں اس بیماری کے علاج یا تحقیق کے متعلق سیمیناروں کا احوال بیان نہیں کرنے جارہا ۔ بلکہ یہ بتانے جارہا ہوں کہ یہ بیماری اپنی ابتدائی حالت میں کون کون سی علامات ظاہر کرتی ہے ۔ اور اس کا آغاز کس طرح ہوتا ہے ۔ غیر محسوس انداز میں کہ ساتھ رہنے والے بھی اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ایک انسان اپنی زندگی بھول رہا ہے ۔ مرکزی حکومت (دماغ) سے ایک کے بعد ایک ریاست (اعضاء) آزادی کا اعلان بغاوت کر رہے ہیں ۔ انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ زندگی کے ان تنگ و تاریک راستوں میں داخل ہو رہا ہے ۔ جہاں وہ خود اور اس کے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔الزائیمر کا آغاز جیسا کہ ابتدائی تحقیق سے سامنے آئی ہے کہ ذہنی دباؤ اس کا بنیادی سبب ہے ۔ شروع میں مریض کی یادداشت ایک مختصر وقت کے لئے ختم ہو جاتی ہے جیسے وہ اپنے گھر کے افراد میں سے چند ایک کو پہچان نہیں پاتا اور کبھی کبھار جوانی کے ایام دور کے واقعات اور تعلق والے اسے یاد آتے بلکہ سامنے بیٹھے محسوس ہوتے ہیں ۔گھر سے باہر سیر کے لئے جائیں تو اچانک وہ اپنے گھر کی شناخت بھول جاتے ہیں ۔ گھر کے سامنے کھڑے اپنا گھر تلاش کرتے ہیں ۔ پھر اسی تلاش میں ایک گلی سے دوسری میں جاتے جاتے گھر سے دور نکل جاتے ہیں ۔ اور جب انہیں یادداشت واپس آتی ہے تو اس وقت تک اپنے گھر سے بہت دور نکل چکے ہوتے ہیں ۔ گھر کی پہچان تو واپس آ جاتی ہے مگر اب گھر سامنے نہیں رہتا ۔ کھانا کھا چکنے کے بعد بھی انہیں اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی کھانا نہیں کھایا ۔انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ کھانا کھا چکے ہیں ۔دن و رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے آدھی رات کو سالوں پہلے چھوڑا گیا دفتر اچانک یاد آجاتا ہے اور تیار ہو کر اندھیرے میں دفتر جانے کی تیاری میں گھر سے باہر جانے کی ضد کرتے ہیں ۔آہستہ آہستہ یادداشت کھونے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ۔اور دیر تک اپنے حال سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ماضی پرانے ریکارڈ کی طرح نکل کر سامنے آ جاتا ہے ۔اردو انگلش لکھنے پڑھنے والی آنکھیں لفظوں سے شناسائی کھو دیتی ہیں ۔ مریض سمجھتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہو چکی ہے مگر دراصل دماغ کے وہ خلئے جس میں الفاظ کا ڈیٹا سٹور رہتا ہے صاف ہو جاتا ہے ۔پاخانہ پیشاب کے لئے باتھ روم تک پہنچ نہیں پاتے اور راستے میں ہی کپڑے خراب ہو جاتے ہیں کبھی بستر پر تو کبھی کسی فرش پر ۔ مریض سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑنے کا فن بھول جاتے ہیں ۔ روٹی کا نوالہ بنانے کی ترکیب یاد نہیں رہتی ۔ چمچ کو ہاتھ سے پکڑنا بھول جاتے ہیں ۔ بنیادی طور پر انگلیاں دماغ سے آزادی کا بغل بجا دیتی ہیں ۔اور لکڑی کے سہارے سے بھی لا تعلق ہو جاتی ہیں ۔کئی سال یہی معمولات زندگی رہتی ہے ۔ اگر کبھی دست کی شکایت سے کمزوری یا نقاہت ہو جائے تو ایک دو دن بستر پر رہ جائیں تو پھر پاؤں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں رہتا ۔ بچے کی طرح لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں ۔ زیادہ تر وقت اپنے حوش وحواس میں نہیں رہتے ۔ چند لمحوں کے لئے یادداشت لوٹ کر آتی ہے ۔ اور مریض صرف بستر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے ۔ کھلی آنکھیں اور سانس لیتی ہوا صرف زندگی کی علامت رہ جاتی ہے۔ یہ زندگی مہینوں نہیں سالوں پر محیط ہے ۔ ایک ایک پل مریض جس تکلیف سے گزرتا ہے بیان سے باہر ہے ۔اس بیماری کا دورانیہ آغاز کے بعد15 سے 20 سال تک بھی رہ سکتا ہے ۔
یہ بیماری زیادہ تر بوڑھے لوگوں میں دیکھنے میں آئی ہے مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ 50 کی عمر کے افراد جو شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئے ۔ترقی یافتہ ممالک میں تو الزائیمر کا مرض کافی پرانا ہے ۔ اور وہ سال و سال سے اس کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر فی الحال کوئی خاص کامیابی نہیں ملی مگر اس سے بچاؤ ممکن ہے کہ ڈپریشن اور سٹریس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی جائے ۔ مگر اب ہمارے معاشرے میں یہ بیماری وبا کی طرح پھیل رہی ہے ۔جوں جوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ رشتوں میں محبت اور ہمدردی کے جزبات کم ہوتے جارہے ہیں ۔ خاص طور پر معاشی ، خاندانی اور معاشرتی مسائل سے پریشانیاں بڑھی ہیں ۔کہیں دولت کی تقسیم سے تو کہیں رشتوں کے لین دین سے آپس میں ناچاتیاں پیدا ہوتی ہیں ۔زیادہ تر وہی لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جو گھل گھل کر جیتے ہیں ۔دل کی بات کسی سے نہیں کہتے ۔ غم دکھ کسی ہمدرد سے بانٹتے نہیں بلکہ خود سے برداشت کرنے اور کڑھتے رہنے سے دماغ میں شریانیں سکڑتی چلی جاتی ہیں ۔ جب یہ بیماری سامنے آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے ۔ اپنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیں کہیں ہمارا اپنا کوئی پیارا تو برداشت کی قوت کو آزماتے آزماتے زندگی تو نہیں بھول رہا ۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور صحت و تندرستی سے زندگی گزارنے کےڈھنگ پرعمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( 5 so far )

Liked it here?
Why not try sites on the blogroll...