طنز و مزاح،

زن آٹے دارتھپڑ کی گونج

Posted on جولائی 14, 2010. Filed under: معاشرہ, نثری مضامین, سفینہء محمود،, طنز و مزاح، |

ڈاکٹر ڈین کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ کی گونج کئی بار سنائی دی ۔ تھپڑ تو ایک بار ہی پڑا تھا ۔ مگر فلم کرما کئی بار دیکھی گئی ۔جیلر کو پلٹ کو ڈاکٹر ڈین کا دھمکانا کہ وہ اس تھپڑ کی گونج بھولے گا نہیں ۔ جیلر چاہتا بھی یہی تھا کہ وہ کبھی نہ بھول پائے ۔
لیکن ہمیں گونج سے کبھی بھی سروکار نہیں رہا ۔مگر اس بات کا تجسس کبھی ختم نہیں ہوا ۔کہ یہ خاص قسم کی گونج کب اور کیونکر پیدا ہوتی ہے ۔کیونکہ گھونسوں سے کبھی ایسی آواز نکلتے دیکھی نہیں ۔سنا ہے کہ آٹا گوندھنے والی خاتون کا ہاتھ بہت بھاری ہو جاتا ہے ۔ شائد اسی بنا پر گونج دار تھپڑ کو ایسی عورت کے ہاتھ سے تعبیر کردیا گیا ہے ۔ زن (عورت) آٹے دار ۔

اس نام کے سنتے ہی ایک واقعہ دماغ میں گرم روٹی کی طرح تازہ ہو جاتا ہے ۔جسے ہمارے ایک دوست نے کچھ یوں بیان کیا تھا ۔
ان کا ایک کلاس فیلو کیمسٹری کی لیب میں ایک روز دوستوں سے ایسے کیمیکل کے بارے میں جانکاری مانگ رہا تھا ۔جو اس کی داہنی آنکھ کو بھی سرخ کر دے ۔بائیں آنکھ بس میں دوران سفر ایک زن آٹے دار تھپڑ کی وجہ سے پہلے ہی سرخ تھی ۔ گھر والوں کی تفتیشی نگاہوں سے بچنے کا صرف یہی ایک حل انہیں نظر آیا ۔ دوستوں نے افسوس کا اظہار تو کم ہی کیا ۔ البتہ مذاق زیادہ اڑایا گیا ۔
موصوف ہمیشہ اپنی قمیض کی جیب میں ایک ایسی ڈائری رکھتے کہ جس میں روزانہ ادا کی گئی پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی کے اوقات درج ہوتے ۔ چہرہ ان کا تراشی ہوئی داڑھی سے منور تھا ۔ایسے میں موصوف کے چہرے پہ زن آٹے دار تھپڑ کی لالی سمجھ سے بالا تر تھی ۔جو موصوف نے کچھ یوں بیان کی ۔
ان ہی کے کالج کا ایک آوارہ لڑکا اکثر بسوں میں لڑکیوں سے مہذب انداز میں چھیڑ خانی کرتا ۔ بد قسمتی سے اس بار وہ مہذب انداز چھیڑ خانی موصوف کی بغل کے نیچےسے ہاتھ نکال کر آگے کھڑی لڑکی سے کرنے لگے ۔تو زن آٹے دار تھپڑ کے سامنے جو پہلا چہرہ آیا وہ موصوف کا تھا ۔سو وہ انہی پر جما دیا گیا ۔اور وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ماجرا کیا ہوا ۔ اپنے پیچھے کھڑے مہربان کو پایا تو معاملہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی ۔مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔پھر اس کے بعد وہ زندگی بھر بس کے پچھلے حصے میں ہی اپنا مقام بناتے رہے ۔ پچھلے دروازہ پر لٹک کر جانے کو بہتر جانتے اگلے دروازہ کے قریب جانے سے ۔
ابھی حال ہی میں دو خواتین ارکان اسمبلی میں دست بدست تھپڑوں کا تبادلہ ہوا ۔ مگر گونج زور دار نہیں تھی ۔البتہ گالیاں کافی جاندار تھیں ۔اگر زنانیاں( خواتین) آٹے دار ہوتیں تو زن آٹے دار گونج مرد ارکان کے کانوں میں بھی پہنچتی اور شائد ڈر کے مارے مرد و خواتین کی نشستیں اور دروازے بس کی طرح آگے پیچھے ہو جاتے ۔شائد اسی لئے تو آٹا گوندھنے والی خواتین کو اسمبلی کی اہلیت کے قابل نہیں سمجھا جاتا ۔ کہیں ان کی گونج قوم کو سنائی نہ دے جائے ۔

نوٹ : اس مضمون کو طنز و مزاح کے تناظر میں پڑھاجائے ۔

Read Full Post | Make a Comment ( 6 so far )

سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی

Posted on جون 23, 2010. Filed under: معاشرہ, نثری مضامین, پاکستان, سفینہء محمود،, طنز و مزاح، |

کل کی بات ہے” جب آتش جوان تھا” کا مصرعہ ہماری بھی زبان پہ رہا کرتا تھا ۔ آتش کی جوانی محاورۃ استعمال کی ہے ۔ وگرنہ یہ تو آگ تھی جو حیوانی رنگ رکھتی ہے ۔اور کل سے مراد بھی چند روز پہلے کا ذکر نہیں کر رہا ہوں ۔ کیونکہ اگر پچیس تیس سال لکھ دیتا تو کہا جاتا پرانی بات ہے ۔ رات گئی بات گئی ۔اگر دن پچیس سال پرانا ہو تو بات پھر بھی رہ جائے گی ۔باتوں باتوں میں یہ بتانا تو بھول گئے کہ عنوان میں ایک مصرعہ کا کیا کام دوسرے مصرعہ کے بنا تو تحریر نا مکمل رہے گی ۔چلیں پہلے اسے مکمل کرتے ہیں ۔
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر

بات مختصر اور قصہ شروع کرتے ہیں ۔قصہ سنانے والے داستان گو تو ہیں نہیں ۔جو ایک دفعہ کا ذکر ہے سے ایک کہانی بیان کریں ۔بات تو شروع ہوئی تھی آتش سے جو بات بے بات بھڑک اٹھتا ۔جب یہ ارادہ ہی کر لیا کہ پانی سر سے بھی گزر جائے غصہ میں ڈوبے گے نہیں ۔سو غوطے کھا کھا کر تیرنا سیکھ ہی لیا ۔
ایک بار جو ٹرین کا فسٹ کلاس کا ٹکٹ ہاتھ میں اور بیٹھے سیکنڈ کلاس میں اور وہ بھی کسی کی مہربانی سے اس کی برتھ پہ تو پسینہ ماتھے سے بہنے نہیں دیا ۔ٹکٹ چیکر نے جب ہمیں غلط جگہہ بیٹھے پایا تو قبضہ ختم کرنے کا حکم صادر فرما دیا ۔ جلے بھنے تو پہلے ہی بیٹھے تھے ۔ اس سے پہلے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ۔کمپارٹمنٹ کے ہمدرد بھڑک اٹھے ۔کہ پہلے ہی جناب سیکنڈ کلاس میں چھت پر لٹکے ہیں ۔ اب یہاں سے کہاں پہنچاؤ گے ۔اس دوران ہم مونگ پھلی اور چلغوزے بے دھڑک چھیلتے رہے ۔
بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی جب روزانہ ہی ملازمت میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر پلے پڑ جائے اور وہ بھی ویگن کا جہاں داخلہ تو انسانوں کا ہوتا ہے ۔مگر بیٹھنا بھیڑ بکریوں جیسا ۔اتنے کم پیسوں میں تو ایسی ٹرانسپورٹ ہی نعمت ہوتی ہے ۔
خواہشیں تو ایسی ایسی تھیں کہ یار لوگ کہہ دیتے”نہ نو من تیل ہو اور نہ رادھا ناچے "اگر تیل پورا بھی ہو جاتا تو ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والی ضرب المثل رہ جاتی ۔ مگر بچنے کی امید پھر بھی کم ہی رہتی ہے ۔انگلیوں پر نچانے والے فنکارانہ صلاحیتیں بروئے کار لے آتے ہیں ۔ایک ہماری انگلیاں ہیں جہاں شعلہ سلگتا تو انگلیاں ناچتی ہیں ۔بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ذکر تو ویگن کے سفر کا ہو رہا تھا ۔شدید سردی ، بند شیشے ہوں اور انگلیوں میں سگریٹ ناچے تو دھوئیں کے بادل ای این ٹی یعنی آنکھ ناک گلا کو دعوت تکلیف دیتے ہیں ۔آتش کو ہلکی آنچ پہ رکھا اور شعلہ بجھانے کی ترغیب دے ڈالی ۔مگر ہماری تجویز ذاتی عنادقرار دے دی گئی ۔کہ پوری وین میں اکیلے ہم ہی ای این ٹی کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی شکائت کر رہے ہیں ۔دوسرے مسافر” سفر خاموشی سے کریں "کے کلیہ پر عمل پیرا تھے ۔صبر کا دامن ہم نے ہاتھ سے پھر بھی نہ جانے دیا ۔اس سے پہلے کہ کہیں آتش بھڑک اٹھے ۔ ماچس جلا کر اپنا سگریٹ سلگا لیا اور اپنے روزانہ کے ہمسفر دوست کو بھی اس نیکی کے کام میں شریک کر لیا ۔دھوئیں کی مقدار بڑھنے سے بند وین کے تمام مسافر ای این ٹی کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے ۔اور لگے کوسنے ۔اگر پہلے ہی ساتھ میں بول اٹھتے کہ ” یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ” تو کھانسنے سے پہلے ہی معاملہ دب جاتا ۔لیکن پھر بھی” دیر آید درست آید”۔ اگلا سفر جناب ای این ٹی مریضوں کے زیر عتاب رہے ۔اور ہم ضمیر جگا کر یا غصہ دلا کر تیزی سے پاس گزرتے درختوں کے نظارہ کے مزے لوٹتے رہے ۔
مزے تو ہم پتنگیں لوٹنے میں بھی لیتے رہے ہیں ۔لیکن یہ تب کی بات ہے جب آتش نادان تھا ۔کٹی پتنگ اور خالی ویگن کے پیچھے بھاگنا کبھی بھی اچھا تجربہ نہیں رہا ۔تجربے تو اور بھی بہت سے ہیں ۔ ایک شعبہ سے آج کے لئے ایک ہی کافی ہے ۔
ہر سفر کا اپنا مزاج ہوتا ہے ۔سفر کاٹنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔جیسا کہ ہوائی جہاز کے سفر میں کھڑکی سے باہر جھانکنے سے سفر نہیں کٹتا ۔ اس لئے تو ایک نشست ایک سکرین اور ایک ہیڈ فون سے منسلک سفر کی صعوبت گھٹاتی ہے ۔اب اگر ہیڈ فون کی ایک پن ٹوٹ کر ایسی پھنسے کہ نئے ہیڈ فون کے داخلہ کا راستہ روک لے ۔ تو ائیر لائن کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے کیا ۔ جی ہاں وہی تو اپنی پی آئی اے کا ہم سفر ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا ہے ۔جانے ائیر ہوسٹس کون کون سےکچن کے اوزاروں سے پن نکالنے کی ناکام کوشش کر چکی تھی ۔ سارا جہاز ای این ٹی کے مزے لے رہا تھا یعنی کھاناپینا ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوائیں اور کانوں میں رس گھولتے گانے ۔یہاں ای سے مراد آنکھ نہیں کان لیا جائے ۔ اس بار بھی ایک نیا تجربہ کیا ۔ کیونکہ ویگنوں کے سفر میں گھٹنے درد کی شکایت سے روشناس ہوئے ۔ اب درد کے روگی تھے ۔ اکانومی کلاس پرانے زخم تازہ کرنے کا سبب ہوئی تو پی کلاس میں جا گھسے ۔بزنس کلاس نے ہمیں پہلے کبھی قریب نہ بھٹکنے دیا ۔ اب ہم خود قریب جانے سے کتراتے ہیں ۔یہ وقوعہ پی کلاس کا ہے جو اکانومی کلاس سے صرف اتنی بہتر رہی کہ کھانے سے پہلےگیلا گرم تولیہ استعمال کرنے کو دیا جاتا ہے ۔
"پلٹ تیرا دھیان کدھر” اگر آپ نہ بھی کہتے تو میں واپس وہیں آنے والا تھا ۔ جب پن نکالنے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی تو پونے دن کے سفر میں مزید کوفت سے بچنے کے لئے سیٹ کی تبدیلی کا عندیہ دیا گیا ۔ارد گرد نظر دوڑائی تو اگے والی چار سیٹوں پر ایک خاتون پاؤں پھیلائے خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں ۔اور ہم سکرین پر نمودار ہونے والی تصویروں کی آواز سننے سے لاچار ۔بائیں جانب انہی خاتون کے شوہر نامدار ایک نشست پر خود اور ساتھ والی دو پر غیر ضروری سامان رکھ کر قبضہ ظاہر کر رہے تھے۔ جیسے بسوں میں اکثر سفر کرنے والے دیہاتی کھڑکی سے اپنا پرنا یعنی سافہ خالی نشست پر باہر سے ہی پھینک کر دھکم پیل سے بس کے اندر بعد میں داخل ہوتے اور قبضہ پہلے حاصل کر لیتے ۔وہاں لڑ جھگڑ کر قبضہ ختم ہوتے تو کئی بار دیکھ چکے تھے ۔ مگر یہاں واسطہ ایک پڑھے لکھے ریٹائرڈ افسر کے ساتھ پڑا جو سفید بالوں کے نیچے ٹائی کوٹ میں ملبوس اپنے دفتر میں ناک کے نچلے حصے سے فائلوں پر نظریں جمائے دستخط کرنے کا منظر پیش کر رہا تھا ۔
اب یہ کسی سرکاری افسر کا دفتر تو تھا نہیں ۔ سرکاری ائیر لائن ضرور تھی ۔ تو ہم بھی ایک عدد عینک کے ساتھ تیسری نشست پر جا براجمان ہوئے ۔ مگر ہیڈ فون کانوں میں لگانے سے پہلے ہی بھاری رعب دار آواز نے چونکا دیا ۔ کہ جناب آپ یہاں کیسے تشریف لائے ۔ اپنی نشست پر تشریف رکھیں ۔ دیکھتے نہیں ہم یہاں بیٹھے ہیں ۔
بڑی مشکل سے آتش کو سنبھالا دیا اور عرض پردازی میں آنے کی غرض بیان کی ۔مگر جناب نے ہمیں کھری کھری سنا کر اپنا قبضہ بحال کرا ہی لیا ۔اگر وہیں غصہ کا اظہار کرتے تو دیکھنے والے کہتے کہ بزرگ سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ان پڑھ اجڈ کہیں کا ۔ ہونٹوں کو دانتوں کے نیچے دبائے ” بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے ” گاتے ہوئے وہیں آ بیٹھے ۔پھر اس کے بعد آتش جو بڑھکا تو دیکھنے والوں نے ضرور کہا ہو گا ۔ کہ ” گرا گدھے سے غصہ کمہار پر ” والی بات ہے یہ تو ۔
پی آئی اے کے عملہ کو لائن حاضر کیا کہ جناب پہلی مرتبہ اکانومی سے پی کلاس سفر کا آغاز کر رہے ہیں جہاں ہم ” ڈی گریڈ ” ہو رہے ہیں ۔ہمیں تو اپنی نشست پر ہی ہیڈ فون لگانا ہے ۔ تو ایک کے بعد ایک اپنی تمام توانائیاں ضائع کر کے بھی ہماری ایک ادنی خواہش پوری نہ کر سکے ۔پوری ہوتی بھی کیسے ۔ دوسروں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے والے اور خدمت سر انجام دینے والے نازک ہاتھ تو ملازمت کے حصول میں مشکل سے کامیاب ہوئے تھے ۔ اب مستری تو تھے نہیں کہ ٹھوک ٹھاک کر پن نکال دیتے ۔حالانکہ اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ ایک نہتی پن کے پیچھے سارا عملہ ہاتھ دھو کر پڑ گیا ۔ایک بزرگ ریٹائرڈ افسر کو ہی آنکھیں دکھا دیتے تو بات بن جاتی ۔
ہم نے بھی سیدھی انگلی سے گھی نکلتا نہ دیکھ کر اپنے تیور ٹیڑھے کر لئے ۔کہ پی آئی اے کے اعلی افسران تک اپنا مدعا پہنچائیں گے ۔ انصاف کے حصول تک پی آئی اے میں سفر کے بائیکاٹ کی دھمکی بھی دے ڈالی ۔جو کارگر ثابت ہوئی ۔اور ہمیں اپنی پسند کی نشست حاصل کرنے کا حق مل ہو گیا ۔ تو پھر کیا۔ ہاتھ آیا موقع کھو دیتے ۔ جہاں بزرگ کی بیگم لیٹ کر سہانے سپنے دیکھ رہی تھیں ۔ درمیان والی نشست پر انگلی رکھ دی ۔چار و نا چار بیگم خاوند کے پہلو میں بٹھا دی گئیں اور ہم چاروں نشستوں پر براجمان ہوئے ۔اس کے بعد میرے آتش کو ٹھنڈی پیپسی سے مسلسل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔
اگر بات یہیں پر ختم ہوتی تو ہیپی اینڈ ہوتا ۔مگر کہانی چند گھنٹوں کے بعدنئے رنگ میں ڈھل گئی ۔ وہی خاتون اٹھ کر میرے پاس آئیں اور اپنی کمر درد کا واسطہ دے کر اپنے خاوند کے ناروا رویے پر ندامت کا اظہار کیا تاکہ میں ان کی آرام دہ بستر نما نشستوں سے دستبردار ہو جاؤں ۔
ہم نے تعلیم سے دولت نہیں کمائی صرف شعور پایا ہے ۔ اگر دولت کما لیتے تو ریٹائرڈ افسر کی طرح شعور سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔ آخر کار ہم ان کی تکلیف کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے حق سے دستبردار ہو گئے ۔ اور اسی جگہہ جا بیٹھے جہاں سے کبھی اٹھائے گئے تھے ۔لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ ساتھ بیٹھنے والا پہلے سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا ۔ اب بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا ۔تعلقات میں کشیدگی کم ہونے پر دوران گفتگو معلوم ہوا ۔کہ وہ اپنے ڈاکٹر بیٹے سے ملنے ودیش یاترا جا رہے تھے ۔جو کسی بڑے ہسپتال میں بڑا ڈاکٹر تھا ۔
اس سفر کا تجربہ بہت اچھا رہا ۔ اس لئے نہیں کہ دوران سفر کیا ہوا ۔ بلکہ جو وی آی پی پروٹوکول عملہ کی طرف سے حاصل ہوا ۔اتنی پزیرائی تو کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ۔
کہانی کو یہیں ختم نہ سمجھیں یہ زندگی ہے جو چلتی رہتی ہے ۔دن اور رات کے درمیان میں اپنا سفر طے کرتی ہے ۔ یہاں بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں کہ انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر

Read Full Post | Make a Comment ( 4 so far )

تحریر ختم نہ ہومفہوم ہضم نہ ہو

Posted on مارچ 21, 2010. Filed under: نثری مضامین, پاکستان, طنز و مزاح، |

آج کچھ نیا لکھنے کا ارادہ کیا ہے دعا کریں کہ تحریر مکمل ہو اور مفہوم سادگی میں ایسے لپیٹ دیا جائے جیسا کہ آج کل ہمارا ملک دہشت گردی کی آگ میں لپٹا ہوا ہے ۔علم در دیوار سے جھانک رہا ہے ۔عالم دروازہ تھام رہا ہے ۔مکین چارپائیوں پر پاؤں لٹکائے ایسے بیٹھے ہیں ۔جیسے زمین پر رینگتے سانپوں سے ڈسنے کا خوف ہو ۔جو سیلاب کے پانی سے بہتے گھروں میں داخل ہو چکے ہوں ۔ مشاق نشانہ باز عقاب کی طرح شکار پر نشانہ باندھے بیٹھے ہیں ۔ زمانہ بدل چکا ہے نشانے چوک چکے ہیں ۔خوف اب آنکھوں میں نہیں رہا بلکہ دل سے بھی اتر چکا ہے ۔ روز ہی نت نئے پٹاخے پھٹنے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کی عادت ہو چکی ہے۔ ہر وقت کانوں میں بجتے نئی البم کے گانوں کی جھنکار
سے قوت سماعت اب اتنی طاقتور ہو چکی ہے ۔ کہ دل تک پہنچنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں ۔اب دل صرف مسرور ہونا جانتا ہے ۔ وہ دن بیت گئے جب دل کمزور اور جذبات برانگیختہ رہتے ۔
دیسی گھی کھانے والےمحنت مشقت کے عادی بدن کم حوصلگی کے باعث دوسروں کی تکلیف پر اشکبار ہو جاتے ۔اپنی روٹی روزی چھوڑ کر کندھے دوسروں کے آنسوؤں کا سہارابن جاتے۔ تکلیف کا احساس فصل کی بربادی سے لے کر موت کی منادی تک اپنائیت کے اظہار سے بھرپور ہوتی ۔ سادگی سادہ مفہوم کی چاشنی سے لبریز ہوتی ۔ گہری باتیں عقل سالم کو بزم ادب ہوتیں ۔ محنت و مشقت سے جھریاں پڑے شفاف دل کی مانند شفاف چہرے بناوٹ و تصنع سے پاک ہوتے ۔جھوٹ بولنا لمحے میں پکڑا جاتا ۔ آنکھیں اداس تو ہو جاتیں مگر مکاری نہ جھلکتی ۔
کم خرچ بالا نشین تو بہت سن چکے ہیں ۔ اب کم خرچ بالائے طاق کے فارمولہ پر عمل پیراہونے کا دور ہے ۔اگر یقین نہیں تو ہر بڑے شہر میں میکڈونلڈ ، سب وے، پیزا ہٹ،کے ایف سی اور اسی طرح کی بےشمار فرینچائزڈ جگہ جگہ ملیں گی۔جو محنت و مشقت سے تکلیف نہ اٹھانے والے بدن کو توانائی سے بھرپور مکمل ڈائیٹ پروگرام نہایت( ارزاں) قیمت پر دستیاب ہیں ۔اگر زمانہ ترقی پر ہے تو کیوں نہ اپنے منہ کا ذائقہ بھی بدل لیا جائے ۔دال مسور اور پالک آلو کھلا کھلا ماؤں نے بچے معمولی باتوں پر دوسروں کے درد کا احساس نہ جھیلنے والے بنا دیا تھا ۔جو بات بہ بات آنسو ایسے بہاتے جیسے ان کے گھر قیامت برپا ہو ۔ حالانکہ اہل دانش پہلے ہی کہہ چکے کہ تو اپنی دیکھ تجھے دوسروں کی کیا پڑی۔
مگر بیچ میں پڑنے کا ہمیشہ انتظار رہتا ۔اکثر محلے دار آپس میں لڑائی جھگڑے کاتبھی آغاز کرتے جب بیچ بچاؤ کرانے والے پہنچ جاتے ۔آج بیچ میں نہ آنا تو درکنار کانوں سے سنی ان سنی کر دیتے ہیں ۔گھروں میں ٹی وی کی آواز سے اپنے گھر میں آواز نہیں سنائی دیتی۔تو دوسروں کی آوازیں کہاں سے سنائی دیں گی ۔
پہلےسچ بولا بھی جاتا تھا اور سنا بھی ۔اب نہ تو بولا جاتا ہے اور نہ ہی سنا ۔سچ بولنا اب تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ جی وہ سچ جس کو بولنے سے اپنے مفاد کو زد نہ پہنچتی ہو ۔مفادات محفوظ ہوں ۔ بے دھڑک بول دیا جاتا ہے ۔ جہاں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہومصلحت پسندی آڑے آتی ہے ۔اب تو ہر طرف عَلم ہی عَلم ہیں عِلم کے ۔ آڑے ہاتھوں لینے والے کمر کسے تاک لگائے بیٹھے ہیں کہ جہاں نظریں چار ہوئیں نشانہ لگانے سے نہیں چوکتے ۔تعریف و تحسین سے پزیرائی کم ملنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔مگر تنقید سے توانائی چاہے نہ ملے مگر تشنگی باقی نہیں رہتی ۔دل کی بھڑاس نکل بھی جاتی ہے اور نکالنے میں بھی آسانی رہتی ہے ۔حالانکہ آج پروگرام ایسا ہی تشکیل دیا تھا ۔ خوب تنقید کروں گا جی بھر بھڑاس نکالوں گا ۔ اچھے اور تعمیری کاموں کی ترغیبات میں کیڑے نکالوں گا ۔اپنے مشورہ جات سے چاندی ورق لگاؤں ۔مگر کیا کروں نام لے کر نقادوں کی محفلیں کیوں خراب کروں ۔
لیکن ایک راستہ ایسا ہے کہ ٹیپو سلطان سے لیکر عصر حاضر کے سیاسی شاہسواروں تک ایسی تاریخ خراب کروں کہ گھمسان کے رن سے محفلیں خود ہی پانی پت کے میدان کی طرح شکست خوردہ فوجوں کی مانند دھول چاٹتی رہ جائیں ۔اور سب اپنا بھول کر میرے ہاں گھمسان کا رن ڈالنے پہنچ جائیں ۔دھما چوکڑی کتابوں سے نکل کر بلاگزکی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کردے ۔لکھنا مجھے مہنگا بھی پڑ سکتا ہے ۔ مگر آج طے کر لیا ہے کہ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ۔
مطلب آم کھانےسے ہے گھٹلیاں گننے سے نہیں ۔ اور اگر محاورہ کچھ یوں ہو جائے تو مزید رونق افروزی رہے گی کہ مطلب دام گننے سے ہے گٹھڑیاں باندھنےسے نہیں ۔ اب دام پورے نہ بھی ہوں گٹھڑیوں کی تعداد گننے سے اگر چہرے پہ رونق آ جائے تو لٹنے والے ضرور کہیں گے کہ مال سے اب حال اچھا ہے ۔مریض اب مال سے ہی اچھا ہو گا ۔حال اچھا ہونے سے ہال تالیوں سے نہیں گونجا کرتے ۔مال سے تالی بجتی ہے ۔ کیونکہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے کہاوت پرانی ہو چکی اب تو ہاتھ کو مال سے راہ ہوتی ہے کی کہاوت زبان زد عام ہے ۔ اگر یقین نہیں تو میری تقریر(تحریر) پڑھ کر تالی بجا کر دیکھیں ۔ ہاتھوں کی دھمک کان کے پردے سے دل کے کونے کدرے میں محسوس کریں گے۔
مگر ایک بات تو بھول ہی گیا جیب خالی ہو تو دو ہاتھوں سے تالی بجے گی ۔اور اگر ایک ہاتھ جیب پہ ہوتو ساتھ والے سے کہیں گے کہ دے تالی ۔اور اگر اس کا بھی ایک خالی ہوا تو بجے گی تالی ۔ کبھی غریب کو دو ہاتھوں سے شادی پہ مرغ مسلم کھاتے دیکھا ہے ۔ ہمیشہ ایک ہاتھ پلیٹ سے چپک جاتا ہے ۔اپنےایک ہاتھ ہی سے منہ بھرتا ہے اور کبھی کبھار تو اپنی مونچھ بھی خراب کر لیتا ہے ۔ جو تاؤ دیتے دیتے تنگ آ جاتی ہے ۔ مگر کھانا ملتے ہی ادب سے مصالحے میں بھیگ کر جھک جاتی ہے ۔بہت سی مونچھیں کھانا ملنے پر ادب سے جھکی ہوئی دیکھ چکے ہیں آپ ۔ اب مجھے نہ کہیں کہ دکھاؤ ۔ دیکھ دیکھ کر اس حالت کو پہنچ چکے ہیں ۔کہ اب تو آئینہ میں خود کو دیکھنے کی ہمت نہیں رہی ۔ خدانخواستہ ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ یار لوگ کہیں کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔
یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی پہلے وقتوں میں مسور کی دال شریف گھرانے منہ چھپا کر خریدتے اور منہ چھپا کر گھر لاتے تھے ۔ پھر اس محاورہ میں یہ منہ کسے کہا گیا ہے ۔ اگر آپ جانتے ہوں تو میرے علم میں اضافہ کر کے ثواب حاصل کریں ۔ کیونکہ یہ دال کئی دوسری دالوں سمیت ہمارے منہ سے اتر کر جہنم واصل ہو چکی ہیں ۔لیکن ہم نے کبھی منہ نہیں چھپایا ۔مگر فخر بھی کبھی نہیں کیا ۔کیونکہ فخر کرنے کے لئے بچا کچھ نہیں ۔ جو ایک زندگی میں نعمت فخر زندہ تھی بھائی لوگوں نے کوٹ کوٹ کر شر سے نشر کرا کر دفن کر دی ۔
اب تو میں ہوں اور میری تنہائیاں جواکثر مجھ سے ہی سوال کرتی ہیں ۔جو جواب مجھے یاد تھے زندگی کے امتحانوں میں سنا دئیے ۔جو نمبر عطا ہوئے وہ اب ایک ایک کر کےجمع کر رہا ہوں ۔ جب مکمل ہو جائیں گے تو شائدسرٹیفیکیٹ بھی مل جائیں ۔کہ فیل ہو ئے یا پاس ۔
پاس ہونے سے پاس آنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔پاس ہونے والے ہاتھوں میں سرٹیفیکیٹ لئے منہ لٹکائے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں ۔ مگر پاس آنے والے پہلے دو ہاتھوں سے تالی بجاتے تو پھر دونوں ہاتھ سے جیبیں گرماتے ہیں ۔ خود تصویر کھنچواتے پھرتے اورپھر خود ہی اپنے منہ میاں مٹھو بن جاتے ۔اور پاس ہونے والے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ۔ ایک سرد آہ بھر کر ضرور کہتے ہوں گے کہ کاش ہم نے مسور کی دال منہ بسور کرکھائی ہوتی ۔ ترقی کی سیڑھی میں پہلا پائیدان پاس ہونے کی بجائے پاس آنے کو رکھا ہوتا تو آج ہمارے دونوں ہاتھ ہماری بغلوں میں نہ ہوتے ۔اور دوست نما دشمن ڈگریاں ہاتھ میں لیے دیکھ کر بغلیں نہ بجا رہے ہوتے ۔

تحریر : محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

محبت نہ اتنی پاس ہوتی تو دل کو آس ہوتی

Posted on مارچ 7, 2010. Filed under: اردو کلام, بر عنبرین, طنز و مزاح، |

محبت نہ اتنی پاس ہوتی تو دل کو آس ہوتی
طولانی جب مسافت ہوتی تبھی تو پیاس ہوتی

زندگی کا سنا کر قصہء عشق مجھ کو بیمار کر دیا
ایسی بھی کیا مجبوری کیاری میں اب گھاس ہوتی

چلو چھوڑو پرانی کہانی کو دیتے ہیں نیا عنوان
پہننے کو جو رہ گئی لنگی کہنے کو کبھی لباس ہوتی

اپنی قسمت ہی کو روتا زمانہ تو قصور وار ہوا
ایسی غلطی کا ہوتا خمیازہ عسرتِ افلاس ہوتی

رہتا ہمیشہ زیر بار ہی اب تو کرایہ دار بھی تو
محبت بھی کاش کھیل کی طرح جیت کی ٹاس ہوتی

بر عنبرین / محمودالحق

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

ادب آداب سے

Posted on مارچ 3, 2010. Filed under: نثری مضامین, طنز و مزاح، |

تحریر : محمودالحق

نام معاشرے میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد پہلا کام نام کا چناؤ ہوتا ہے ۔کہانیاں ہوں یا کتابیں ، ڈرامے ہوں یا فلم موضوع کے اعتبار سے نام رکھے جاتے ہیں ۔ ساتھ میں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔کہ پڑھنے والے یا دیکھنے والےٹائٹل سے کھنچے چلے آئیں ۔کبھی کبھار عنوان زندگی میں پائی جانے والی حقیقتوں سے اخذ کئے جاتے ہیں ۔ جیسے کبھی خوشی کبھی غم ۔
کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میں نے کسی جانی پہچانی فلم کا نام لکھ دیا ہے ۔ لیکن یہاں تو بات صرف عنوان سے منسوب ہے ۔ اگر فلم کا ہی نام دینا ہوتا تو جیرا بلیڈ ، جیرا سائیں ، وحشی جٹ یا گجر سے کام چلا سکتا تھا ۔لیکن میں اپنے دئیے عنوان کی خود ہی نفی کر دیتا ۔اور ادب بے ادبی میں بدل جاتا ۔ ادب سے جن کا گہرا تعلق ہوتا ہے وہ ادیب کہلاتے ہیں ، مگر مولا جٹ فلم میں بھی ادیبوں نے اہم کردار دا کیا ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسی گنڈاسہ فلموں سے ادیبوں کا دور نزدیک کا واسطہ نہیں
تو پھر اتنا بڑا الزام کیوں لگا ۔ پریشان نہ ہوں مشکل حل کئے دیتے ہیں۔ ان میں ایک لکھنے والا ادیب تھااور ایک ولن ادیب ۔
اب ان ادیبوں کا ذکر کیا کروں کہ جن کا ادب سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔لیکن میں بحیثیت انسان بے ادبی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔لوگ مجھے بھی بے ادب کہتے ہوں گے کہ میں نے اصول و ضوابط کی بے اصولی میں ادب کا اظہار نہیں کیا ۔ آج میرا موضوع وہ ادیب ہیں جن کی جمع ادباء ہے ۔جس طرح غریب کی غرباء ، امیر کی امراء ۔غریب غربت کا مارا ۔ امیر امارت کا دلدادہ ۔اور ادیب ادب کا گہوارہ بنے رہنے میں خوش باش رہتا ہے ۔ جس شخص کے پاس بال کٹوانے کے لئے وقت نہ ہو۔اسے شاعر یا ادیب کہنا عام رواج ہے ۔لیکن حقیقت میں اگرمحبوب پرایا ہو تو کیا ۔زلف دراز اپنی کیوں نہ ہو ۔
میرے بار بار ادیب کہنے سے کہیں ادیبائیں ناراض نہ ہوں کہ وہ وقت گزر گیا جب ادیبوں شاعروں میں صرف غالب ، مومن ، حالی ، میر تقی میر ، میر درد ، علامہ اقبال اور نثر میں جن کے نام آپ جانتے ہیں سمجھ لیں ۔طوطی بولتا تھا ۔
اب زمانہ نیا ہے ادب پرانا کیسے نبھا کر پائے گا ۔ اب صرف ادیب نہیں ادباء کہلائیں گے۔کہنے سننے میں یہ آتا ہے کہ اس صف میں اگر آپ شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان ادباء کو بار بار پڑھیں ۔لیکن پڑھیں کیسے سب ہی ایک دوسرے سے جدا رنگ میں رنگے ہیں ۔محبوب ایک ہے نظر محبت میں تضاد ہے ۔تو پھر کیوں نہ محبت کی بجائے محبوب کو ہی اپنا بنانے میں سر دھڑ کی بازی لگائی جائے ۔جب محبت ہی نہ ہو تو پھر محبوب کا چاہےآدھا دھڑ مچھلی کا ہو چلے گا ۔ محبوب کے ذکر میں یہ خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ خدوخال اور ادائیں کہیں وجاہت عاشقانہ نہ ہوں ۔ پڑھنے والا کبھی عاشق تو کبھی خود ہی محبوب سمجھ کر شرماتا رہے ۔ اب ظاہر ہے ایسے ادب کی تخلیق کسی اصول و ضابطے کے بغیر تو بغیر دھڑ کے سرکس بچہ جیسی ہوگی ۔
اب اگر کوئی مجھے ادیب و شاعر سمجھ بیٹھے۔ تو پہلا خیال یقینا مولا جٹ سےذہن میں آئے گا ۔کہ ایک بے ادب ادیب کا اضافہ جو قائدے قانون کی خلاف ورزی میں محبوب کے ساتھ ساتھ محبت کے رنگ قوس و قزح کی بھی پینگیں بڑھا رہا ہے ۔بغیر استاد کے ہی تخلیق ادب کی بے ادبی کب تک برداشت ہو گی ۔
با ادب با نصیب ، بے ادب ۔۔نصیب تو سن رکھا ہے ۔اب کہیں یار لوگ نصیب کی جگہ ادیب نہ پڑھنے بیٹھ جائیں ۔پریشانی تو پہلے بھی کم نہیں ہے ۔

شاعری میں ترکیب کلام زبان نے پریشان کر دیا
تو نے لکھنے سے ہی زمانہ حیران کر دیا
سوچنے پر مجبور شاعر سے شعور انسان کر دیا
عمل جانفشانی سے پیراستہ شعور مسلمان کر دیا
صدیوں کے شاہ صدا کو رحم داستان کر دیا
صدیوں کے شاہ گدا کو کرم قرآن کر دیا

اگرمحبوب قلب محبت میں ہے کسی خدوخال کے بغیر ۔تو اس کی تعریف و توصیف میں اصول و ضوابط کی پابندی کیوں اختیار کی جائے ۔جو تصور خیال قلب کی حدود و قیود میں خود نہیں تو کاغذ پہ پھیل کر ساکن و متحرک گردان الفاظ میں کیسے ڈھلے ۔جو محبت متحرک تحریک ہو وہ خیال ساکن حروف میں کیسے سموئے۔ اب ایسے میں علم ریاضی غلطی ہو گئی عروضی کے فارمولے پر کیسے بٹھایا جائے۔
اگر پرندوں اور جنگلی جانوروں کو تفریح طبع کے لئے بچوں کے ہمراہ تماشا دیکھنا ہو تو چڑیا گھر کا رخ کیا جاتا ہے ۔ نہایت نظم وضبط اور قائدے قانون کا احترام کرتے پرندے اور چوپائے۔ کھانے کے آداب سے سلیقہ شعاری میں بسر کرتے زندگی ۔ مگر وہ ان کا اصل حسن نہیں ۔ حسن ان کی آزادی میں ہے ۔جنگلوں پہاڑوں میں ۔ جہاں آبشاریں بہتی ہوں ۔ ندیاں گنگناتی ہوں ۔ درختوں کی سرسراہٹ میں پرندے گاتے ہوں ۔کوس و کوس دھاڑنے کی آوازیں انہیں ترنم تو دوسروں کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہوں ۔
مگر ادب آداب والے قید پسند کئے جاتےہیں ۔ کھلے وحشی بے ادب نہیں۔ جو ہمارے طے شدہ قائدےقانون میں ہمارے لئے خطرہ کا سبب ہوں ۔ایسی تفریح جس میں ہمارا نقصان زیادہ فائدہ کم ہو ۔ اسے اپنانے کا کیا فائدہ ۔ایک باریک چھڑی کے اشارے پر جنگل کا بادشاہ سرکس میں میزوں پر چڑھتا ہوا تماشائیوں کو احترام سے بھر پور مجسمہ ادب نظر آتا ہے ۔غرانے کی بے ادبی کو برداشت نہیں کیا جاتا ۔ چند سیکنڈمیں ڈھیر کرنے والے بہادر چار اطراف پھیلے قائدے قانون سے ہٹنے کی اجازت نہیں دیتے ۔
شاہی سرپرستی میں بڑے ناموں نے غالب جیسے شیر ادب کو بڑھاپا میں بھی کینچے کھیلنے پر مجبور رکھا ۔ بے ادب توحالات کا شکار ہوسکتا ہے ۔مگر ادب نہیں ۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

پاک نیٹ – پاکیزہ جال

Posted on مارچ 2, 2010. Filed under: نثری مضامین, طنز و مزاح، |

تحریر : محمودالحق

ایک زمانہ تھا شکاری نالوں اور خوڑوں میں کبھی مرغابیوں تو کبھی چھوٹی مچھلیوں کا شکار کرتے ۔ جن کی دسترس میں دریا ہوتے تو پھندہ وہیں لگایا جاتا ۔شکار کی اہمیت بھی کم تھی ۔ شکاری بھی کم تھے مگر شکار زیادہ تھا ۔ایک کے بعد ایک شکار ہوتا چلا گیا ۔شکاریوں میں شوق بڑھتا چلا گیا ۔نت نئے طریقے اپنائے جانے لگے ۔ کم وقت میں زیادہ کامیاب ایکشن کا رحجان تقویت پکڑتا گیا ۔ چرخی اوررسی سے ایک، ایک کی بجائے ایک سو ایک شکار اکٹھا ڈھیر کرنے کے لئے جال کا استعمال اہمیت اختیار کرتا گیا ۔
کھلے پانیوں میں بھاگ بھاگ کر بھاگتے شکار پر دھاوا بول دیا جاتا۔ کھیل کود میں مصروف تو آسانی سے قابو آ جاتے مگر نیت بھانپ جانے والے بچ جاتے ۔ ساتھ میں وہ بھی لقمہ بن جاتے
جنہیں ابھی جینا شروع کئے چند روز ہوتے۔ بڑے جبڑے کے شکار میں تو شکاری اپنی جان کی خلاصی میں عافیت سمجھتا ۔زیادہ تر جال شکار کے لئے ایسے تیار کئے جاتےکہ جگہ جگہ چپکو لگا دیا جاتا ہے ۔ تاکہ ہر آنے والا شکار چپکو سے دھوکہ میں جال میں پھنس جائے ۔ کھیل کود کا تماشا جان کر کھیلتا کھیلتا جال کے گہرے حصے میں بڑھتا جائے ۔ جال پھینکنے والے ایسے ہنر رکھتے ہیں ۔ کہ ہر شکار کی فطرت و رغبت کا خاص دھیان رکھا جاتا ہے ۔انہیں جال اپنا دوست ، غمگسار و ہمدرد ی کی شال معلوم ہوتا ہے ۔کھلے پانی میں آزاد رہتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہونے کا خوف انہیں ہر دم پریشان رکھتا ہے ۔ایسے میں جال ہی میں انہیں بچاؤ و عافیت کی جھلک نظر آتی ہے ۔
ایک کے بعد ایک کبھی خود تو کبھی کسی کے کہنے میں جال یعنی نیٹ کی دنیا کا دوست بنتا چلا جاتا ہے ۔اور خوش آمدیدی کلمات ، تہنیتی پیغامات اور ہر فورم پر بہترین موضوعات چپکو بنے رہنے سے نئے آنے والوں کو گائیڈ لائن اور ترغیبات تماشائی بنانے میں نیٹ کے ستون کا درجہ رکھتے ہیں ۔پھر تقسیم در تقسیم ذیلی فورم افادیت کے پھیلاؤ میں احساسات و خیالات کو سمیٹتے چلے جاتے ہیں ۔
آئیے اب ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں ۔کیسے یہ جال یعنی نیٹ ڈالے جاتے ہیں ۔اور کون ہیں وہ جو تلاش میں آنے والوں کے ہم شکل چپکو آویزاں کرتے ہیں ۔ لیکن اس سے پہلے مجھے اس نقطہ پر روشنی ڈالنی ہو گی کہ اتنی لمبی تمہید کس مقصد کے تحت باندھی گئی تو عرض ہے کہ میں نے جو ٹائیٹل دیا پاکیزہ جال ، آپ پوچھیں گے ایسا جال ہمیں بھی دکھائیں جو شکار بھی کرتا ہو اور پاکیزہ بھی ہو ۔ خود ہی اس سے انکار کر رہا ہوں ۔کہ شکاری کی نیت بھی ٹھیک ہو کیونکہ میں کسی ٹھگ کا ذکر نہیں کر رہا تو نیت پہ شک کرنا ٹھیک نہیں ہو گا ۔اور خاص طور پر میری نیت پر ۔ کہ جناب آپ کو اتنی عزت بخشی اور یہ صلہ کہ ہمیں ہی ظالم شکاریوں کی صف میں لا کھڑا کیا ۔ تو لیجئے اپنا حق ادا کرنا ہم نہیں بھولے ۔
پاک نیٹ کا ہی تو اردو ترجمہ کیا پاکیزہ جال ۔
اب اگر کچھ ہاتھ ہولا نہ رکھ پاؤں تو دل بڑا رکھئیے گا ۔معاف کرنے کے لئے بڑے حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور جن میں کم ہوتا ہے وہ پہلے ہاتھ دکھاتے پھر ہاتھ جھاڑ کر چلتے بنتے ہیں ۔ پھر صرف جھانک جھونک کر ہی تسکین تنقید پاتے ہیں ۔اب اگر نام ہی پاکیزہ ہو تو جال میں چپکو چاہے جیسے بھی ہوں قابل قبول ہیں ۔کیونکہ وہ سب ہنر مندی کے مظاہر ہوتے ہیں ۔جالوں کی دنیا میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ نئے آنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔ الفاظ کے خوش آمدیدی بینر آویزاں ہوتے ہیں ۔ آج ہی ایک بینر میں نے بھی لگایا ہے ۔کیونکہ اس نے شاہ جی ۹۰ کو پیغام اچھا دیا تھا ۔ سوچا دعائیں دینے والے یہاں سے جانے نہ پائیں ۔گھیر کر رکھیں ۔ اگر اچھا کیا تو فوری طور پر شکریہ کا بٹن دبائیں ۔پڑھیں بعد میں ۔
اور اگر کسی نئے آنے والےنے لطیفہ پر ہاہاہاہا کہا ہو تو بھئی وہی جانے ۔ انہیں کیسا بینر لگانا ہو گا ۔ اگر یہ جال کی دنیا پندرہ سال پہلے ہوتی تو یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ۔پہلا خوش آمدیدی بینر خود لگا دیتا ۔ لیکن اب پاکیزہ جال نے سنجیدگی میں مجھے لیا ہے تو سنجیدہ ہی رہوں تو اچھا ہے ۔ وگرنہ کہنے والے نہیں چوکیں گے کہ ہاتھی کے دانت دیکھانے کے اور کھانے کے اور ۔ بیچارہ ہاتھی نہ جانے کیوں بدنام ہے ورنہ دانت کھٹے کرنےاور دانت نکالنے کی عیبی فطرت سے تو پاک ہے ۔
میرے مشورہ کو اہمیت نہ دیں اور خود سے سوچیں کہ آپ کس کھڑکی میں رہنا پسند کریں گے ۔ ہر جگہ مت جائیں مطلب پنگا مت لیں ۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر رہ جائے گا ۔توجہ اپنی ایک طرف مرکوز رکھیں ۔ جھانکیں ہر جگہ مگر دروازہ وہی کھولیں جہاں کھڑکی ۲۰۰۰ کے بعد کی ہو ۔ اب اگر آپ ونڈو ۹۸ استعمال کرتے ہیں تو اسے اپ گریڈ کر لیں ۔یہاں آپ کو مکینک او ہو معافی چاہتا ہوں سوفٹ وئیر انجئینر اور گرافر ایسے ملیں گے کہ آپ عش عش کر اٹھیں گے ۔
میں نے یہیں سے بہت سیکھا ۔ جی ہاں خاموش رہنے میں عافیت ہے ۔ عزت کریں عزت کروائیں ۔ہلکی آنچ پہ تفکر کریں ۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک پیتا ہے ۔ جس دودھ کے بارے میں ریسرچ ہو چکی کہ اس میں ٹی بی کے جراثیم ہیں پھر بھلے اسے سارا ہی جلا دو بہتر ہے ۔ مگرپھونکیں بچا کر رکھیں ۔بجلی آنے پہ موم بتی بجھانے کے اور جب گیس نہ ہوگی تو آگ جلانے میں کام آئے گی۔
ابھی تک تو کئی ایسے فورم ہیں جن کے ذیلی فورم بھی آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی مانند ہیں ۔لیکن چھوڑنا نہیں ایک ایک سے بدلہ چکانا ۔جو کبھی بچپن سے لڑکپن یا لڑکپن سے جوانی میں کسی نے برا سنایا ہو تو یہاں اچھا اچھا سنا کر برائی کا بدلہ اچھائی سے چکانا ۔
اگر ٹینشن زیادہ ہو تو پھر آپ کے لئے بہترین فورم گپ شپ کا رہے گا ۔سب سے بڑا جلسہ گاہ وہی ہے ۔ستر ہزار سے زیادہ کا شو چل رہا ہے ۔اس سے آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس پارٹی کا منشور قابل عمل ہے ۔یعنی ٹینشن توڑ پارٹی کا منشور ۔
اگر آپ ٹی وی پروگرام میں مناظرے کے دلدادہ ہیں تو اس کے لئے بھی یہاں چند افراد کے درمیان کافی اہم علمی و ادبی مراسلات کی صورت میں آپ کو سیکھنے کو ملے گا ۔دوسرے نمبر پر آپ کو یہاں بڑی تعداد میں ممبران نظر آئیں گے ۔
خواتین کے بھی الگ سے فورم موجود ہیں ۔ بعض اوقات وہ خود سے بھی کسی بھی فورم میں اپنی پتنگ کو ہوا میں بلند کر لیتی ہیں ۔ غلطی سے بھی اس طرف نگاہ نہ اٹھائیں ۔ کیونکہ وہ چاہے دو لفظ کا دھاگہ ہو مگر با پردہ روم کا درجہ پاجاتا ہے ۔اور اندر گھسنے والے کو گھونسہ رسید کے ساتھ دیا جاتا ہے ۔نیا ممبر اکثر یہ غلطی کر بیٹھتا ہے۔ کھلا پا کرجہاں چاہا منہ اُٹھایا چل دیا ۔ پھر گاتے پھریں گے ۔ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے دھاگےسے ہم نکلے ۔دل دکھانے والی بات تو پرانی ہو چکی ۔ اب تو دھمکانے کی بات کا دور ہے ۔
بچوں کا بھی اب ایک الگ بچہ فورم ہے ۔ لیکن فورم کی طرح بچے بھی انہیں کے ہیں ۔بچوں کی گفتگو سے سمجھنا مشکل نہیں ۔ کہ سکول آف تھاٹ کونسا ہے ۔اگر گھر والے آپ کو ابھی بھی بچہ سمجھتے ہیں ۔ تو پھر بہتر یہی ہے کہ اس فورم میں بڑوں سے اپنا بدلہ چکائیں ۔آپ روٹھیں گے بڑے منائیں گے ۔
اگر آپ کسی بھی خیال سے آزاد رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور لوگوں کو برے برے ناموں سے پکارنے کی عادت کا شکار ہیں تو” اپنے سے اوپر والے ممبر کو کوئی خطاب دیں "کے اس دھاگہ کو بکثرت استعمال میں لائیں ۔ آفاقہ ضرور ہو گا برے برے نام ذہن سے رفو چکر ہو جائیں گے۔ اور نئے ناموں کا ڈکشنری میں اضافہ بھی ہو گا جو آپ کو ملیں گے ۔
محلے کی کرکٹ ٹیم میں آپ کی باری اگر کبھی نہ آئی ہو ۔ تو اس دھاگہ” کون آئے گا میرے بعد یہاں ” کا استعمال مفید رہے گا ۔ آپ بار بار باری لے سکتے ہیں ۔ جب چاہے پیڈ باندھ کر خود ہی آ جائیں ۔ اس کا رزلٹ دیکھ لیں 61756 مناظر ہیں ۔ آپ کو دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں ممبران آئیں گے ۔لیکن یہاں آپ کو کھیلنا نہیں ۔ صرف نقاب کشائی کی رسم ادا ہوتی ہے یہاں ۔
اس کے علاوہ بھی اتنا مواد ہے کسی لائبریری میں کم ہو ۔ صرف کتابوں کی بات نہیں کر رہا ۔ یہاں سالگراہیں بھی منائی جاتی ہیں ۔ مگر صرف تیس سال سے کم کی ۔ تھانہ بھی موجود ہے ۔ لیکن محرر آپ خود ہیں ۔ عدل جہانگیری کی یاد تازہ کر دی ۔رپورٹ درج کروانے کی جنجھٹ نہیں صرف کنڈی کھڑکائیں ۔وزیر ومشیر کی فوج حاضر خدمت ۔ یہاں انصاف کا بول بالا ہے ۔ مدعی اور جس پر الزام ہو آزاد ہی رہتے ہیں ۔ رپورٹ کا دھاگہ مقفل ہو جاتا ہے ۔
اب اگر ہر فورم کا موضوع کے اعتبار سے باریک بینی سے جائزہ لوں تو بات لمبی اور مقبولیت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔پہلے ہی میری تحریروں کے مناظر سو پچاس سے نہیں بڑھتے ۔ اب اگر انتظامیہ ہی مخالف ہو جائے تو پھر کیا لطیفے لکھوں گا ۔لوگ قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ مگر میں دلوں پر گرفت رکھتا ہوں ۔جن کے اپنے بس میں نہیں ۔ وہ میرے بھی کسی کام کے نہیں ۔
ویسے تو میں بھی کسی کےکام کا نہیں ۔کیونکہ اب کسی کو مجھ سے کوئی کام نہیں ۔
منتظمین نے پاک نیٹ پھیلایا ہے ہم نے اسے پاکیزہ جال میں دکھایا ہے ۔

Read Full Post | Make a Comment ( 2 so far )

زمینی قزاق یاتحسینی مذاق

Posted on فروری 22, 2010. Filed under: نثری مضامین, طنز و مزاح، |

تحریر : محمودالحق

آج تک آپ نے بحری قزاقوں کا ذکر سنا ہے مگر آج میں قزاقوں کی ایسی قسم سے پردہ اُٹھانے جا رہا ہوں جن کی خشکی پر پناہ گاہیں ہیں ۔ انہیں انگلش میں پائریٹس کہا جاتا ہے ۔ ایک عرصہ ہمیں یہ نام رکھنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔ بھلے پیرٹس یعنی طوطا کیوں کہا جاتا ہے انہیں ۔لیکن ہماری انگریزی کی مشق شامت نے یہ مشکل آسان کردی ۔ ورنہ یہی سمجھتے رہے کہ طوطا بے وفا ہوتا ہے ۔ اور آنکھیں پھیر لیتا ہے ۔ اس لئے یہ لوگ بھی ایک آنکھ پر پٹی باندھ کر واردات پر نکلتے ہیں ۔ہماری غلط فہمی جلد دور ہو گئی ۔ اور کئی لوگ قزاق بنتے بنتے رہ گئے ۔
ایک ہمارے بہت مہربان
( کیونکہ ان کی میزبانی سے آج بھی کانوں سے دھواں نکلتا ہے ) کو طوطے رکھنے کا بہت شوق تھا ۔ اپنا لیکچر ریکارڈ کرکے طوطے کے پنجرے کے قریب رکھ دیتے تاکہ جلد وہ انسانوں کی طرح بولنا سیکھ جائے۔ مہینہ بھر کے ریاض کے بعد صحن میں اترتے ہی جناب طوطا بہادر کاں کاں تو کبھی چیں چیں کی گردان کرتے ۔ اگلا ماہ پھر بیچارہ قید تنہائی میں سروں کے ریاض میں گزارتا ۔ قصور طوطے کی قسم کا نکلا تو افریقن طوطا مہنگے داموں منگوایا گیا ۔ سال بھر اس پر محنت فرمائی گئی ۔ وہ بھی چند الفاظ سے اگے نہ بڑھ سکا ۔ طوطا تو آج بھی گھر میں موجود ہے۔ طوطا کی روح اب ان میں سما گئی ہے ۔ رٹے رٹائے الفاظ دہرانے کا کام اب موصوف خود کرتے ہیں ۔جی جناب بیگم جو کہتی ہیں وہی گفتگو فرماتے نظر آتے ہیں ۔ ٹائیں ٹائیں فش ۔اور یہی نہیں آنکھوں پر تو چشمہ ہے مگر چشم نظر طوطا ہو چکی ۔کام نکلنے پر آنکھیں پھیرنا تو چٹکی میں کر لیتے ہیں ۔دیکھنے میں تو بھولے بھالے طوطے نظر آتے ہیں ۔ چوری نہ کھلائیں تو انگلی بچا کر دکھائیں ۔بیگم کا اتنا خیال کرتے ہیں کہ ایک منسٹر صاحب کا پی اے بھی ان کے سامنے مات کھا جائے ۔
پی اے تو وہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا جو علاقہ میں بڑے ٹورنامنٹ کے اختتام پر تقسیم انعامات کے مہمان خصوصی وزیر خزانہ نواز شریف کے ساتھ تشریف لائے ۔ کیا سوچ رہے ہیں کہ یہ کون ہیں ۔ جی ہاں میں انہی کی بات کر رہا ہوں ۔ یہ 1985 سے پہلے کی بات ہے جب وہ گورنر جیلانی کی حکومت میں تھے ۔ گورا چٹا کشمیری نوجوان منسٹر گھبرائیں نہیں لیڈر کے بارے میں ایسی جرآت کہاں کہ انہیں اس صف میں لاؤں ان کا ذکر پی اے کی وجہ سے آگیا ۔ مگر ہم سب ہی دوست پی اے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے ۔گاڑی سے اترنے سے لیکر گاڑی میں بٹھانے تک کی ذمہ داری کسی درباری کی طرح بخوبی نبھا رہا تھا ۔ ہمارا ایک محلے دار علاقہ کے کونسلر کا کچھ ایسا ہی پی اے تھا ۔ ایک فرق صاف ظاہر تھاکہ یہ صاحب ساتھ میں براجمان تھے ۔لیکن کونسلر کا پی اے گاڑی سے اتار کر پھر گاڑی ہی میں بیٹھ جاتا ۔منسٹر اور کونسلر دونوں کا ہی یہ اعزاز ہے کہ1985 میں لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بیک وقت جیتے ۔کار خاص ساتھ بٹھانے والا وزیر اعظم بھی بنا اور وہ پہلی اور آخری بار ہی جیتے ۔شائد اس میں ہماری لگائی پہلی اینٹ کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے ۔ہم ہر آنے والے امیدوار کو مایوس نہ کرتے اور بینر گھر کے سامنے لگانے کی ترغیب دیتے ۔ یوں بینروں کا گھمسان کا رن وہیں نظر آتا ۔ بڑی بڑی سفارش بھی ان بینروں کو نہ اتار سکی ۔ ہمارے بینر لٹکے رہ گئے اور جناب الیکشن جیت گئے ۔ لیکن پھر کبھی نہیں جیتے ۔ اب اگر مجھے کوئی کریڈٹ نہ دے تو سراسر جمہوریت شکنی ہو گی ۔
دل شکنی اتنی بار ہو چکی ہے کہ شکنیں چاہے بستر پہ ہوں یا پیشانی پہ تکلیف نہیں دیتیں ۔تکلیف تو اب وہ لوگ دیتے ہیں جو حقوق و فرائض کا ایسا لیکچر شروع کرتے ہیں کہ خاوند بیچارہ طوطا نامدار نظر آتا ہے ۔ بات بات میں قرآن و حدیث سے ساس سسر کی خدمت بہو کی ذمہ دار ی نہیں ،کی تبلیغ فرمائی جاتی ہے ۔ اور دوسری طرف خوشخبری سنانے میں بیتابی کہ خاوند نامدار کی تنخواہ سے کئی سالوں میں ایک بڑی رقم توڑی گئی تاکہ ولائت میں رہائش پزیرموصوفہ اپنے والدین سے شرف ملاقات حاصل کر پائیں ۔
ملاقات کے لئے آنے والوں کا تانتا تو ہمارے گھر بھی لگا رہتا ۔ اکثر محلے دار سوچتے آئندہ امید واربننے کی تیاری میں ہے ۔گھر آنے والے مہمان دوست اکثر ٹھنڈا مشروب نوش فرماتے ۔ لیکن اچانک ہی وہ چائے کی فرمائش کرنے لگے ۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ خرچہ بچا ۔ جب بھیا جی ( جو بوتل ، سگریٹ و پان کا کھوکھہ چلاتے تھے ) میرا مہینہ بھر کا بل لائے تو آنکھیں چندھیا گئیں ۔اتنی بوتلیں تو میں سال میں بھی نہیں پیتا ۔ آخر کون پی گیا ۔ نام تو نہیں لکھا تھا ۔ موٹر سائیکل کے نمبر درج تھے ۔ سبھی میرے دوستوں کے ۔ظلم کی انتہا ساتھ میں سگریٹ کے پیکٹ بھی ہر بار وصول کئے جاتے ۔پوچھا کہ بھیا جی میں نے کب کہا میں الیکشن لڑ رہا ہوں کھلا کھاتہ چلاؤ ۔کہنے لگا وہ آپ کا نام لیتے تو میں انکار نہیں کر سکتا کہ آپ ناراض نہ ہوں ۔کریڈٹ اتنا اچھا تھا میرا کہ پہلے دوستوں نے آغاز کیا پھر بھیا جی دوستوں کو روک روک کر اپنی بیکری بڑہاتے میرے کھاتے سے ۔
دوکان پر بوتل پینے کا ایک فائدہ تو ہے کہ گرمی زیادہ ہو تو پوری بوتل پینے کو ملتی ہے ۔ ستیاناس ہو نئے نئے گلاس منی سکرٹ کی مانند بنانے والوں کا ۔ ایک بوتل کے چھ گلاس بنتے ہیں ۔ منہ میں ڈالتے ہی پہلے گھونٹ بھاپ بن جاتے ہے ۔اور میزبان کو سانپ سونگھ جاتے ہیں ۔
چلیں آپ کو ایک گھر کی سیر کرواتے ہیں ۔ ایک صاحب اپنے داماد کے ساتھ عزیزوں کے گھر جلوہ افروز ہیں ۔ گلاس میں پیپسی کیک مہینہ بھر فریزر میں رہنے سے کاٹنے کٹنے سے معزور ہو چکا تھا ۔چھری کیک پر آتے ہی ہنستی ہنستی دہری ہو جاتی ۔دو تین بار کی کوشش سے چھری چلانے والے کی بھی ہنسی نکل گئی ۔ اب کی بار سیب پر دھار آزمانے کا فیصلہ ہوا ۔کاٹھے سیب نے کٹنے پر جو ناگواری کا اظہار کیا ۔ تو یہ بات سمجھ آئی کہ کاٹھے انگریز کا لفظ ایسی ہی آوازوں کے نکلنے سے ایجاد ہوا ہے ۔ میزبان نے فوری طور پر ملازم لائن حاضر کیا کہ کھانے والے سیب لائے جائیں ۔ تو جناب اب تک ہم کرکٹ کھیلنے والے سیب سے کھیل رہے تھے ۔ شرارتی مہمان سیب سے کب کرکٹ کھیلی جاتی ہے ۔
جو نہ کھایا جائے وہ مربہ کے کام آتا ہے ۔ اس پر بھی پھبتی کسنے سے باز نہیں آتے یار لوگ ۔اب اگر ایسے سیبوں کا مربہ گھوڑے کھا لیں تو کیا مضائقہ ۔ جب گھاس ڈالنے والے زیادہ اور کھانے والے گھوڑے کم ہوں تو پھر معیار اونچا نہیں ہو گا تو کیا ہو گا ۔ کاٹھے سیب کھا کھا کر کاٹھی اتر گئی پیٹھ پر کاٹھے انگریز رہ گئے ۔
یقین نہیں تو ابھی ٹی وی آن کریں ۔ اگر آن لائن کوئی عالم ہو تو بند کر دیں ۔ کیونکہ عید میں ابھی کئی ماہ ہیں ۔ان کی لڑائی کا مزا تو عید پر ہی آئے گا ۔ میرے مطابق تو کوئی بھی گیارہویں گھنٹے کے بعد دارالحکومتی ٹاک نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر استاد سلامت علی خان اور استاد امانت علی خان زندہ ہوتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی ۔قوم کی بجائے وہ خود ہی ریاض کرکرکے پکے سر وں سے ان کچے سروں کی تلافی کر دیتے ۔تلافی تو دراصل نقصان کی ہونی چاہئے تھی ۔ جو بوریاں بھر بھر آٹا سے سوجی میدہ نکال کر پھیکی چینی کی چائے جیسی روٹی کر دی ۔اگر آپ کا نقصان پورا ہو جاتا ہے یعنی روٹی کا وزن پورا ہو گا تو آپ کاکھویا وزن پورا ہو گا ۔
اگر بجلی کی بندش سے زندگی بھر کھایا کھویا پسینہ سے بہہ جائے تو پرانی فوٹو نئے فریم میں لگوا لیں ۔ تاکہ سند رہے کبھی آتش جوان تھا ۔اگر نیا گھر بنائیں تو آتش دان ضرو رکھیں ۔آگ بھڑکانے کی فکر نہ کریں ۔ اخبار لگوا لیں ۔بیگم کی ہر بات پر جوابی حملہ کریں ۔ سردیوں میں گرم رہے گا ۔ گھر میں زیادہ جگہ نہ ہو تو گملے میں پھول کی بجائے پنیری لگائیں پودینہ کی۔ گل قند کسی کام کی نہیں ۔چٹنی سے کم از کم دال چاول کا خرچہ بچے گا ۔
بچے زیادہ ہوں تو فکر والی کوئی بات نہیں ۔ روٹی اکثر کم پڑتی ہے جہاں ہاتھ زیادہ ہوں ۔مگرہاتھ دکھا کر ہی بہت سے کام نکل جائیں گے ۔اگر مجھے وہ مل جائے جس نے میرا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ سفر کی لکیر ہی نہیں ہے ۔ اس کی ناک کی لکیریں نکلوا دوں ۔ آج تک سفر سے جان نہیں چھوٹی ۔ کل کلاں کو پاک نیٹ سے چلا جاؤں تو کون کون کہے گا کہ جان چھوٹی پڑھنے سے ۔کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب صرف جاوید میاں داد پر صادق آتا ہے ۔آپ لوگ نہ غلطی کرنا ۔چھکا زندگی میں ایک بار ہی لگتا ہے ۔ کون جانے کب لگ جائے ۔اور اگر نہ لگ سکے تو بال ضائع مت کریں سنگل لیتے جائیں ۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

Liked it here?
Why not try sites on the blogroll...